بین السطور

جولائی 26, 2010

واحد جمہوریت پسند جنرل

Filed under: Uncategorized — اطہر ہاشمی @ 1:28 شام
چلیی، پاکستان میں کوئی تو محفوظ ہے اور کوئی کیا چاروں بڑے محفوظ ہیں جن کے بارے میں اخبار ڈان نے ”Quartet Seeure “ کی سرخی جمائی ہے۔ اسے ہم جمہوری حکومت کا ”چوکا“ کہہ سکتے ہیں۔ چھکا بھی لگ سکتا تھا بشرطیکہ ان میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اسپیکر و چیئرمین کو بھی شامل کرلیا جاتا لیکن وہ بھی ان چار کے دم سے ہیں۔وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے ”پوسٹ بجٹ تقریر“ کی طرح اپنے تین منٹ کے خطاب کے اگلے دن جو فرمایا اس کا مفہوم یہ تھا کہ سپہ سالار کی مدت ملازمت میں 2013ءتک توسیع کے بعد ہم خود 2013 ءتک تو محفوظ ہوگئے۔ اس حصار میں انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کو اس لیے شامل کرلیا کہ جناب جسٹس افتخار محمد کی مدت ملازمت بھی 2013ءتک ہے۔ ورنہ کسی بھی ملک میں چیف جسٹس کو تحفظ درکار نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی حفاظت کا تعلق سپہ سالار کی مدت ملازمت سے ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جناب وزیراعظم نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہم ہیں تو جسٹس افتخار بھی ہیں لہٰذا ہاتھ ہلکا رکھیں۔ لیکن جسٹس افتخار محمد چوہدری پر تو جناب زرداری اور جناب کیانی کے پیشرو صدر اور آرمی چیف نے بھی ہاتھ ڈالا تھا مگر اپنے ہی ہاتھ جلا بیٹھے۔ صدر زرداری تو لاتعلق ہوگئے تھے کہ ہم نے عدلیہ کی بحالی کے لیے ووٹ نہیں لیے تھی، روٹی، کپڑا اور مکان کا وعدہ کیا تھا۔ یہ وعدہ وہ بہرحال نبھا رہے ہیں ان کے دم سے بہت کی روزی، روٹی لگی ہوئی ہے اور کچھ کو تو ایوان صدر میں مکان ملا ہوا ہے۔ منشور میں یہ تو کہیں نہیں کہ روٹی، کپڑا اور مکان سب کو دیں گے۔ ویسے اس کا حل پیپلز پارٹی سندھ کے وزیر جیل خانہ جات پیش کرچکے ہیں، جیل ایک ایسی جگہ ہے جہاں روٹی، کپڑا مکان ہی کیا اور بھی بہت کچھ ملتا ہے۔جناب وزیراعظم نے صدر، وزیراعظم، آرمی چیف اور چیف جسٹس کے 2013ءتک محفوظ رہنے کی خوشخبری سناتے ہوئے کہا کہ اب ”حدود میں رہ کر کام کیا جائے“ یہ مشورہ یا ہدایت کس کے لیے ہی، ان میںسے اور کون ہے جس کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ حدیں پار کررہا ہی؟ کیا اس سوال کا جواب ضروری ہی؟ وزیراعظم صاحب نہ تو صدر نہ ہی آرمی چیف کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں اور اپنے بارے میں تو وہ خود جانتے ہیں کہ اتنے محدود ہیں کسی حد کے قریب تک نہیں بھٹکتے مبادا کھینچی ہوئی لکیر پر پاﺅ پڑے جائی، تب شاید یہ اشارہ میڈیا کی طرف ہے لیکن میڈیا تو ان چاروں میں شامل ہی نہیں جسے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے بعد تحفظ کی خوشخبری سنائی گئی ہو، اس خطاب اور صحافیوں سے گفتگو میں جناب وزیراعظم نے یہ فرمایا تھا کہ ”ہمیں کیا کرنا ہے یہ ہم جانتے ہیں، میڈیا اپنا کام کرے“۔ہم حکمرانوں کے بارے میں ہمیشہ خوش گمانی سے کام لیتے ہیں خواہ وہ کوئی ہوں۔ چنانچہ ہم سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اچھے معنوں میں میڈیا کو کام کرنے کی اجازت دی ہے اور اس کا یہ مفہوم نہیں کہ ”جاﺅ، جاﺅ اپنا کام کرو“ یا یہ کہ ہمارے کام میں ٹانگ مت اڑاﺅ، اس معاملہ میں وزیراعظم بڑے فراخ دل ہیں۔ 19 جولائی کو جب وزیراعظم سیکرٹریٹ میں کمیشن برائے اعلیٰ تعلیم کے صدر نشین جاوید لغاری نے ان سے 45منٹ تک ملاقات کی تو وزیراعظم نے ان سے بھی یہی کہا تھا کہ جاﺅ، اپنا کام کرو۔ اس کا سرکاری اعلامیہ بھی جاری ہوا لیکن عجیب بات ہے کہ 5 دن بعد 24جولائی کو خبر آرہی ہے کہ وزیراعظم نے تو ایسی کوئی ملاقات کی ہی نہیں۔ چیئر مین ہائر ایجوکیشن کمیشن سے حکمرانوں کو بڑے تحفظات ہیں اور ان کا شمار ”تحفظ یافتگان“ میں نہیں ہے۔ ہم پھر کہیں گے کہ ہمیں واقعی اس بات کی خوشی ہے کہ ملک کے چاروں بڑے محفوظ ہیں اور ان کی انشورنس پالیسی منظور ہوگئی ہے۔ ہم جیسوں کا کیا ہی، کہیں بم دھماکا، کہیں گولیاں، فاقہ کشی، غربت، مہنگائی، بدامنی یہ سب عوام کا مقدر ہے۔ اہل کراچی چڑیوں کی طرح شکار کیے جارہے ہیں لیکن کراچی ہی کیا، ملک میں کس کا گھر محفوظ ہے سوائے چار، پانچ ”محفوظین“ کے۔ کراچی میں چوبیس گھنٹے میں مزید ایک درجن جیتے جاگتے انسان ہلاک کردیے گئے تو نوشہرہ میں صوبائی وزیراطلاعات کے اکلوتے بیٹے کو قتل کردیا گیا، ہم چونکہ کراچی میں بیٹھے ہیں شاید اس لیے ہمیں اپنا دکھ زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ جس کا اکلوتا بیٹا مارا جائے اس کا صدمہ زیادہ ہے اور یوں ان لوگوں کے دکھ اور صدمے کا اندازہ بھی ہوسکے گا جن کے کڑیل جوان بیٹے دہشت گرد قرار دے کر مار دیے گئے۔ کتنے ہی بیٹے اسی دن کراچی میں شکار ہوگئے۔چیف آف آرمی اسٹاف جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں اکٹھی 3 سال کی توسیع سے ہمیں بھی بہت خوشی ہورہی ہے لیکن وزیراعظم صاحب نے اس کا جو جواز تراشا ہے وہ بڑا عجیب ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ ”جمہوریت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے تناظر میں کیا ہی، مشکلات حالات میں ایسے سپہ سالار کی ضرورت تھی“۔یعنی جنرل کیانی سے نیچے کوئی دوسرا جرنیل جمہوریت پسند ہے نہ اس نام نہاد جنگ کو جاری رکھ سکتا ہی، نہ ہی کوئی دوسرا ایسا ہے جو قبائلی علاقوں میں ”کامیاب فوجی آپریشن“ کرسکے۔ یہ توسیع بھی حسب معمول فوجی مفاد میں ہوئی۔ لیکن کیا یہ دیگر جنرلوں پر عدم اعتماد نہیں اور ان کی نا اہلی کا اعلان نہیں؟ لیکن شاید وزیراعظم کو اپنا اور صدر کا تحفظ عزیز ہے اور یہی ملکی مفاد ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صدر بھی 2013ءتک محفوظ ہوگئے اور گورنر پنجاب کہتے ہیں کہ زرداری صاحب 2018ءتک صدر رہیں گے اور بلاول کو وزیراعظم بنا کر ہی عہدہ چھوڑیں گے۔ تب پھر جنرل کیانی کو 2018 ءتک توسیع دی جائے کہ فوج میں واحد جمہوریت پسند ہیں۔ بی بی بے نظیر تو جنرل اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت دے چکی ہیں، گیلانی صاحب ستارہ جمہوریت تو دیں۔

3 تبصرے »

  1. جب تک ہمارے ملک ميں اصولوں اور قوانين کی پابندی نہيں ہو گی بہتری نہيں آئے گی ۔ ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہيں مگر اسلاف کے کردار کی نفی کرتے ہيں

    تبصرہ کریں منجانب افتخار اجمل بھوپال — جولائی 27, 2010 @ 9:09 صبح | جواب دیں

  2. جنرل کیانی بھی جی اسی ڈیل کا حصہ تھے جو بی بی اور خاں صاب کے درمیان ہوئی تھی
    کہا تو یہ بھی جاتا کہ کیانی صاحب نے وچولے کا کردار ادا کیا تھا۔۔۔
    ویسے ایک بالکل غیر متعلقہ بات ہے
    میرا بڑا دل کرتا ہے کہ میں زندگی میں کبھی قومی مفاد سے ملوں۔۔۔
    بہت دلچسپ چیز ہوگی۔۔۔

    تبصرہ کریں منجانب Jafar — جولائی 27, 2010 @ 11:05 صبح | جواب دیں

  3. اگر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی جنرل کیانی سے مشورہ کر کے، قانون میں ذرا سی ترمیم کر کے آصف زرداری کو تاحیات صدر بنا دیں تو کیا حرج ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آصف زرداری بھی جنرل کیانی کی طرح اپنے عہدے میں توسیع کے خواہش مند نہیں ہیں لیکن وسیع تر قومی مفاد میں ان سے پوچھ تو لیا جائے۔

    تبصرہ کریں منجانب اے کے ملک — جولائی 28, 2010 @ 5:51 صبح | جواب دیں


RSS feed for comments on this post. TrackBack URI

تبصرہ کریں

WordPress.com پر بلاگ.